نایاب حسن
انسانی تاریخ میں قلم کی عظمت،سطوت اور شان و شوکت مسلم رہی ہے،قلم نے وقت کے طوفانوں کا رخ موڑا اور تند خوموجوںکوٹھکانے لگایاہے،قلم ہر زمانے میں سرخرورہتااوراس کے وقار و اعتبار کا ڈنکابجتاہے،قلم قوموںکے عروج و زوال کااستعارہ اور تہذیبوں کے نشوو ارتقاکا اشارہ ہوتاہے،قلم سماجی سطح پر بھی انسانی اذہان و افکارپر اثرانداز ہوتااور معاشرے کے عملی و فکری کینوس پر گہرے اور دیر پانقوش قائم کرتاہے،قلم کی برتری،سروری اور افضلیت پر کسی زمانے میںکسی کوبھی حرف زنی کی جرأت نہیں ہوئی،سیاست و حکومت کے ایوان اس کی زلزلہ افگنی سے خائف رہتے اورسماج و معاشرہ کے ناسورعناصرقلم کی زدمیں آکرمرغِ بسمل کی مانندتڑپنے لگتے ہیں،قلم محضـ لکھنے کا ایک اوزارنہیں؛یہ یداللہ ہے،اس پر الہام اترتااور مضامینِ غیب واردہوتے ہیں، اس سے لکھی جانے والی عبارتیںتاریخ کے صفحات پر نقش ہوتیں اور نسلاً بعدنسل انسانی اذہان پرکندہ ہوتی چلی جاتی ہیں،قلم سیاست،معاشرت،تہذیب،ثقافت اور علوم و فنون کونئی زمین،نئے آسمانوں سے واقف کراتا اور ان سب کوفروغ و ارتقاکے درس دیتاہے؛اس لیے قلم اور اربابِ قلم کی عظمت و جلالتِ شان کا نہ صرف اعتراف ضروری ہے؛بلکہ اس کی حق نوائی و حق نگاری کی تحسین و تائیدبھی لازم ہے۔
حالیہ دنوںمیں ہمارے وطنِ عزیز اور دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں حالات نے جس برق رفتاری سے پلٹا کھایا اور سیاسی منظرنامے کی یکلخت تبدیلی نے معاشرت و سماج کے تانے بانے کوجس بے رحمی و بے دردی سے بکھیرناشروع کیاہے،اس پر قلم اور اہلِ قلم کا خاموش رہنا کیسے ممکن ہوسکتاتھا؛چنانچہ گزشتہ مہینے کے اواخرمیں دہلی کے قریب یوپی کے ایک گاؤںمیں ایک شخص کی ناحق خوں ریزی اوراس سے پہلے چندمشہورادیبوںکے ناحق قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کی لہرکواُس وقت غیر معمولی تقویت ملی،جب ملک کی معروف مصنفہ اور قلم کارنین تاراسہگل نے موجودہ ماحول کے خلاف احتجاج درج کراتے ہوئے اپناساہتیہ اکادمی کی جانب سے دیاگیا اعزازیہ کہہ کر لوٹادیاکہ فی الوقت ہندوستان کی کثیرتہذیبی ومذہبی حیثیت اور اختلافِ رائے کا حق خطرے میں ہے،ان کے ساتھ ایک دوسرے اہل ِقلم اشوک واجپئی نے بھی اپنا اعزازواپس کرنے کا اعلان کردیا،اس کے بعد سے اب تک کم و بیش 29ادبا،اہلِ قلم،دانشوران اور مصنفین اپنے اعزازات واپس کرچکے ہیں،ایک اور خبرپنجاب کی معمراور بزرگ خاتون ادیبہ دلیپ کورٹوانہ کے بارے میں آئی کہ انھوںنے 2004میں ادب اورتعلیم کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کی وجہ سے حکومتِ ہندکی طرف سے دیاجانے والا چوتھاسب سے بڑا شہری اعزاز’پدم شری‘لوٹا دیاہے،انھوں نے اس ردِعمل کے ساتھ اپنا اعزازواپس کیاکہ1984ء میں سکھوں کا قتلِ عام کیاگیا تھا اور اب مسلمانوںکی نسلی تطہیر کی جارہی ہے۔جن لوگوں نے اپنے اعزازات واپس کیے ہیں،ان میں ہندی،اردو،انگلش،کنڑ،آسامی،ملیالم،گجراتی،مراٹھی وغیرہ زبانوںکے ادیب اور مصنفین شامل ہیں۔ہندوستانی ادیبوںکی اس احتجاجی مہم سے ملک کے معززترین ادبی ادارہ’’ساہتیہ اکادمی‘‘پرغیر معمولی اثرپڑاہے اوراکادمی کے چیئرپرسن نے ایگزیکیٹیوبورڈکی جومیٹنگ دسمبرکے مہینے میں ہونی تھی،اسے23؍اکتوبرکوبلانے کا اعلان کیاہے،واضح رہے کہ ساہتیہ اکادمی ہندوستان کا موقر ترین ادبی ادارہ ہے،جس کی اساس گزاری آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہروکے ہاتھوں12؍مارچ 1954کو عمل میں آئی تھی اور وہی اس کے پہلے چیئرپرسن بھی تھے،1955سے اس کے زیر اہتمام ادیبوں اور اربابِ قلم کو اعزازات سے سرفراز کیے جانے کا عمل شروع ہوا اور اُس وقت توصیفی سندکے ساتھ پانچ ہزار روپے دیناطے کیاگیا،2009سے یہ اعزازی رقم ایک لاکھ کر دی گئی اور یہ کل 24ہندوستانی زبانوںمیںخدمت انجام دینے والے ادیبوں،مصنفوں اور دانشوروںکوہر سال دی جاتی ہے،بنیادی طورپریہ ادارہ مرکزی حکومت کی وزارتِ ثقافت کے تحت ہے،مگراپنی سرگرمیوںاور کارروائیوں میں خود مختار سمجھاجاتا ہے۔
دادری سانحہ سے کچھ ہی دن پہلے معروف ادبا ایم ایم کلبرگی ،پنسارے اور ڈابھولکرکابھی قتل ہواتھا اور ان حادثات کے بعد ہی ادبی طبقے میں بے چینی پیداہوگئی تھی،جس کا اظہار دادری سانحے کے بعدیکے بعددیگرے لوگ کرتے ہی جارہے ہیںاور روزانہ ایوارڈلوٹانے والے ادیبوںکی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔ہندوستانی سماج اور یہاںکادانش ورطبقہ ادیبوں کے اس عمل کوبروقت،مناسب اورملک کے موجودہ فرقہ وارانہ ماحول کے خلاف موزوں احتجاج کے طورپر دیکھتاہے،جب کہ حکومت بوکھلاہٹ میں کچھ سے کچھ کہہ رہی ہے،ابتداء اً مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرماایوارڈواپس کرنے والے ادیبوں پر تعریض کرتے ہوئے کہاکہ اگر وہ واقعتاً احتجاج ہی کرنا چاہتے ہیں،تولکھنا ہی چھوڑدیں،پھرکہاکہ ایسے تمام مصنفوںاور ادیبوںکا بیگ گراؤنڈچیک کیاجانا چاہیے اورجب ان پر چوطرفہ حملہ ہونے لگا،توکہا کہ میرے بیان کو صحیح طورسے نہیں شائع کیاگیا اور میرے کہنے کا مطلب یہ تھاکہ دادری میں جوکچھ ہوا،وہ بالکل غلط ہے،مگرانھوں نے احتجاج کے لیے جو طریقہ اور پلیٹ فارم منتخب کیاہے،وہ مناسب نہیں ہے۔یوپی کے باغپت سے بی جے پی کے ایم پی ستیہ پال سنگھ کا کہناہے کہ دادری کا واقعہ تو معمولی ہے اور اس پر ان ادیبوںکی جانب سے اعزازات واپس کرکے
جواحتجاج کیاجارہاہے،وہ ایک منصوبہ بندحکمتِ عملی کے تحت کیاجارہاہے اور اس کے پیچھے ان کا کوئی مقصدہے۔دہلی بی جے پی کے سابق صدراور موجودہ راجیہ سبھاایم پی وجے گوئل کہتے ہیں کہ اگر انھیں ایوارڈواپس ہی کرنا ہے،توجس حکومت کے زمانے میں انھیں یہ ایوارڈدیاگیاتھا،اسے واپس کریںاوراگر وہ ایوارڈواپس کرہی رہے ہیںتویہ بتائیں کہ کیاوہ
اس قومی شہرت اورتکریم کوبھی لوٹارہے ہیں،جوانھیں اس ایوارڈ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے؟ہمارے وزیر اعظم اس سب پربدستورخاموش تھے،جس پرسلمان رشدی نے اچھی چٹکی لی اورایک ٹی وی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے کہاتھا کہ نریندرمودی ایک چرب زبان آدمی ہیں،ان کے پاس دنیابھرکے تمام موضوعات پربولنے کے لیے بہت کچھ ہے،مگروہ ہندوستان میںشہریوںکے بنیادی حقوق کونقصان پہنچانے والے عناصراور ماحول پرکیوںخاموش ہیں؟ شایدملک و بیرونِ ملک کے دانشورطبقے کی احتجاجی مہم کا مودی پر اثرہواہے ؛چنانچہ وزیر اعظم نے بدھ کے روزکہاکہ دادری سانحہ افسوس ناک ہے ،مگرساتھ ہی اپنادفاع کرتے ہوئے یاملک کے شہریوںکے تحفظ کے حوالے سے عائدہونے والی ذمے داری سے دامن بچاتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اس میں مرکزی حکومت کاہاتھ نہیں؛بلکہ اس کی ذمے داری ریاستی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔دوسری طرف بی جے پی کا سرپرست آرایس ایس ہندوستانی ادیبوں کے اس عمل سے بوکھلایاہواہے،پنجابی مصنفہ دلیپ کورٹوانہ کے ’پدم شری‘اعزازواپس کرنے کے بعدآرایس ایس ترجمان’پنچ جنیہ‘نے لکھاکہ عقل و دانش کے یہ خود ساختہ ٹھیکیدارہندوستان کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور یہ کہ سیکولزم کے تعصب میں مبتلاقلم کاراپنے ایوارڈلوٹارہے ہیں۔گویامجموعی طورپرنہ حکومت کے کانوں پر جوںرینگنے کانام لے رہی ہے اورنہ اس کی ہم فکرجماعت اس مسئلے پر سنجیدہ ہے،جس کا احساس ہندوستان کے نابغہ افرادکوستارہاہے اور وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاہوکرملک کی ساخت،شناخت اور جمہوری روح کے تحفظ کے لیے آوازیں بلند کر رہے ہیں۔
دوسری طرف سموارکے دن ممبئی میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب(Neither a hawk nor a dove) کے اجرا کے پروگرام میں بی جے پی کی حلیف شیوسیناکے غنڈوںنے زبردست رخنہ اندازی کی اور زبانی ہنگامہ آرائی پرہی بس نہیں کیا؛بلکہ پروگرام کے آرگنائزر، آبزرورریسرچ فاؤنڈیشن کے صدراورسابق بی جے پی لیڈرسدھیندرکلکرنی کے منہ پرسیاہی مل دی،اُنھوں نے اسی حالت میں کتاب کا اجراکیا اورپریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بتایاکہ میں پاکستان کا ایجنٹ نہیں؛بلکہ دونوں ملکوں کے مابین امن و امان کا پیامبر ہوںاورشیوسیناوالوںکی اس شرم ناک حرکت پرگہرے افسوس کابھی اظہارکیا،لال کرشن اڈوانی، جن کے ساتھ رہ کر کبھی کلکرنی کام کر چکے تھے،نے شدید الفاظ میں اس عمل کی مذمت کی اور اسے ہندوستان کی جمہوری شبیہ کے لیے خطرناک قراردیا؛لیکن شیوسیناکواپنے اس عمل پرذرہ برابرشرمندگی یا احساسِ خفت و ندامت نہیں؛بلکہ بے شرمی کی انتہاکہیے کہ اسے اس پر فخر ہے اور وہ اسی عمل کو وطن دوستی اور ہندوستان سے وفاداری سے تعبیر کرتی ہے،جہاں اس کے بڑے لیڈرسنجے راوت نے سینائی غنڈوںکی اس ننگِ انسانیت حرکت کا دفاع کیا،وہیں پارٹی کے سربراہ ادھوڈھاکرے نے بھی ایسا کرنے والوں کی پیٹھ تھپتھپائی۔اب خود بی جے پی بھی پس و پیش میں ہے کہ شیوسیناکے ساتھ دوستی قائم رکھے یا توڑدے اور ایسی خبریں آرہی ہیں کہ مہاراشٹربلدیاتی الیکشن میں بی جے پی نے تنہامیدان میں اترنے کا فیصلہ کیاہے۔
بہر کیف یہ جو صورتِ حال ہے،یہ کسی ایک جماعت،کمیونٹی یا ملک کے کسی ایک خطے کے لیے تباہ کن نہیں ہے؛بلکہ آج کے مربوط و منسلک معاشرے میں اس کا اثرآناً فاناً سارے ملک ہی نہیں،ساری دنیامیں محسوس کیاجاتاہے،جہاں ملک کے مختلف مذاہب و طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اس قسم کے واقعات کوالگ الگ نظریے سے دیکھتے اوراس کے زیرِ اثربسااوقات کوئی نامناسب اقدام پر مجبور ہوجاتے ہیں،وہیں عالمی میڈیااور معاشرے میں ہندوستان کی شبیہ ایک انتہاپسند،کٹراور عدمِ برداشت والی ریاست کے طورپرابھرتی ہے،بی جے پی اپنے سیاسی مفادات کی خاطرشیوسیناسے گٹھ جوڑکیے ہوئے ہے،مگراب جبکہ اس کی سرکشی،تمرداور عاقبت نااندیشی کی زدمیں وہ خود بھی آرہی ہے،توایسے میں اسے صورتِ حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا اور ایسے عناصرپرلگام کسنے کی تیاری کرنا چاہیے۔اسی طرح دادری اور اس جیسے ناحق قتل اور حقِ زیست و اظہارِرائے پرقدغن کا جوماحول پورے ملک پر چھاتاجارہاہے،اس تعلق سے بھی مودی حکومت کوکوئی ٹھوس قدم اٹھاناہوگا،اربابِ قلم اور ملک کے دانشورطبقے کا احتجاج ایسا نہیں ہوتاکہ اسے وقتی لہر اورہواکا جھونکاسمجھ کرنظرانداز کردیاجائے یا کوئی اور سیاسی حربہ اپناکرایسے لوگوں کو قابوکرنے کی تدبیر کی جائے،انھیں قابوکرنے کی واحد تدبیر یہی ہے کہ ملک کے زہرناک حالات کو کنٹرول کیاجائے اورمذہب و فرقہ بندی پر مبنی سیاست کے ابھرتے کلچرپرروک لگائی جائے۔وزیرِ اعظم نے اس مسئلے پرلمبے سکوت کے بعدزبان کھولی ہے،مگراندازوالفاظ بتاتے ہیں کہ انھوں نے محض ایک رسم پوری کی ہے؛حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ بحیثیت وزیرِ اعظم ملک کے ناگفتہ بہ ماحول کو پر امن اور بہتر بنانے کے لیے مضبوط اورمصمم ارادے کا اظہارکرتے اوراس پرجلدازجلدعمل درآمدکرتے۔
(بصیرت فیچرس)